Skip to content →

جماعت اسلامی کشمیر پر بندش

از ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
پلوامہ دہشت گرد حملے کے بعد تقریباً ۱۵۰ ؍لوگ کشمیر میں گرفتار ہوئے تھے جنمیں ۳۰ لوگ جماعت اسلامی کشمیر کے تھے۔ان میں جماعت کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی، عبدالرؤوف امیر حلقہ اننت ناگ، مدثر احمد امیر حلقہ پہلگام شامل تھے۔حکومت کا کہنا ہے کہ جماعت پاکستان مؤید ہے اور ہند مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ ۲۸ فروری ۲۰۱۹ کو مرکزی وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت اس تنظیم کو پانچ سال کے لئے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا : ’’ جماعت اسلامی کشمیر میلیٹنٹ تنظیموں کے رابطے میں ہے اور کشمیر اور دوسری جگہوں میں انتہا پسندی اور میلیٹنسی کی تایید کرتی ہے‘‘۔ پابندی کے بعدجماعت اسلامی کشمیر کے تقریباً ۴۰۰ لوگ گرفتار ہوچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نہ صرف دفاتر بلکہ جماعت اسلامی کشمیر کے ارکان کے گھر بھی شمع بند (سیل) کئے جارہے ہیں جوکہ بڑی زیادتی ہے کیونکہ گھروں میں چھوٹے بڑے اور خواتین بھی رہتی ہیں جن کو بغیر قصور کے سخت مصیبت میں مبتلا کیا جارہا ہے جس سے حکومتی اہلکاروں کی تنگ نظری کا اندازہ ہوتا ہے۔ 
۱۹۵۳ میں جماعت اسلامی کشمیر نے جماعت اسلامی ہند سے اپنا تعلق توڑ کر الگ یونٹ بنائی جو باقاعدہ طور سے اکتوبر ۱۹۵۴ میں قائم ہوگئی۔۱۹۶۵ سے ۱۹۸۷ تک جماعت اسلامی کشمیر نے انتخابات میں حصہ لیا اور اس کے لیڈر سید علی شاہ گیلانی صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے۔ 
۱۹۷۵ میں شیخ عبداللہ ۔اندرا معاہدے کی جماعت اسلامی کشمیرنے پرزور مخالفت کی جس کی وجہ سے اس پر کچھ دنوں کے لئے پابندی لگائی گئی ۔اپریل ۱۹۷۹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جماعت اسلامی کشمیر کے افراد اور ان کی املاک پر بہت حملے ہوئے۔
۱۹۸۷ میں جماعت نے کچھ اور لوگوں کی مدد سے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ بنایا اور الیکشن میں حصہ لیا۔ اس میں اس کو ۹.۳۱ فیصد ووٹ ملے مگر اس کے صرف چار امیدوار کامیاب قرار دئے گئے کیونکہ انتخابات میں بہت دھاندلی کی گئی تھی۔حزب المجاہدین کے قائد محمد یوسف شاہ (سید صلاح الدین )۱۹۸۷ میں جماعت کی طرف سے انتخابات میں امید وار تھے ۔ اس کے بعد سے جماعت نے کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا ۔
۱۹۸۹ میں میلیٹنسی کے بھڑکنے پر جماعت اسلامی کشمیر نے اس کا ساتھ دیا اور سب سے بڑی مسلح تنظیم حزب المجاہدین اسی کے لوگوں نے بنائی۔اسی بنا پر ۱۹۹۰ میں جماعت پر دوبارہ پابندی لگائی گئی ۔ اسی سال حزب المجاہدین کے کمانڈر احسن ڈار نے اعلان کیا کہ حزب المجاہدین جماعت کی مسلح شاخ ہے۔۔ سید علی شاہ گیلانی کو بھی حریت کانفرنس میں رہنے کے لئے جماعت کو چھوڑنا پڑا۔
۱۹۹۷ میں جماعت نے خود کو حزب المجاہدین سے الگ کرلیا اور تب سے اس نے اپنے آپ کو میلیٹنسی سے دور رکھا ہے۔جماعت اسلامی کشمیربہت سے اسکول اور خیراتی ٹرسٹ چلاتی ہے۔
ایسے حالات میں جبکہ جماعت اسلامی کشمیر میلیٹنسی میں براہ راست شریک نہیں ہے اور تعلیمی و رفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی سمجھ سے باہر ہے۔ اس طرح کی پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونگے۔ مودی حکومت کی سخت گیر پالیسی کشمیر میں ناکام ہو چکی ہے۔ حد سے زیادہ سختی سے حالات صرف بد سے بدتر ہونگے اور مزید نوجوان میلیٹنسی کی طرف راغب ہونگے۔
نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی کی مذمت کی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے: ’’حکومت ہند کو آخر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟انتہا پسند ہندو گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے جبکہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے جس نے کشمیریوں کی انتھک مدد کی ہے‘‘۔ اس سوال میں بہت وزن ہے۔ حکومت ہند کو اس کا جواب دینا چاہئے حالانکہ ہم کو ا س کی امید نہیں ہے لیکن عدالتوں سے انصاف کی امیدضرور ہے۔
(ختم)

Published in Articles Urdu

Comments

Leave a Reply